اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان پر صرف عرصہ پانچ سال حکومت کرنے والے شیر شاہ سوری نے مختصر
عرصے میں جو کارنامے سرانجام دئیے ، ان کو نہ صرف مغلوں نے خراج تحسین پیش کیابلکہ
انگریز بھی ان کے انتظامی معاملات کی تعریف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے کچھ کارنامے تو ایسے بھی ہیں جنہیں انگریز
خود بھی اپنائے بغیر نہ رہ سکا۔
شیر شاہ سوری آخر کون تھے؟ یہ سب جاننے کے لئے آپ کو
ان کے خاندانی پس منظر سے آگاہ کرتے ہیں۔
ایک برطانوی مورخ اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں :۔ “کسی حکومت حتیٰ کہ برطانوی
حکمرانوں نے بھی ملک کے نظم و نسق میں گڈ گورننس اورانتظامی مہارت کا وہ ثبوت نہیں
دیا جو شیر شاہ سوری نے ہم سب کے سامنے پیش کیا۔”
شیر شاہ سوری سور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے کے
جد امجد محمد سور کا تعلق غوری خاندان میں شمار ہوتا تھا۔ افغانستان آکر انہوں نے
ایک سردار کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہاں پر مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہ وہ وقت تھا
جب دہلی پر افغان قبیلے ساہوخیل کے سردار سلطان بہلول لودھی حکومت کر نے پر مامور
تھے۔ سلطان یہ چاہتا تھاکہ ہندوستان میں زیادہ
سے زیادہ افغان کی آبادی ہو۔ انہوں نے افغانوں کو نوکریاں، جاگیریں اور معاش کے
ذرائع دینے کے لئے عملی طور پر کام کئے۔ ان کی اس زرہ نوازی کو دیکھتے ہوئے بڑی
تعداد میں افغان ہجرت کرکے دہلی اور اردگرد کے علاقوں میں آکر آباد ہوئےاور زندگی
گزارنا شروع کی۔ انہی ہجرت کرنے والوں میں سور قبیلے سے شیر شاہ کے دادا ابراہیم
خان بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے۔ ہندوستان آکر انہوں نےایک سردار
جمال خاں سارنگ خانی کے ہاں نوکری کرنا شروع کی، اور بے مثال خدمت پر کئی گاؤں اور
چالیس گھڑ سواروں کی فوج ان کے حصہ میں بطور تحفہ آئی۔
شیر شاہ کے والد نے اپنی زندگی میں چار عورتوں سے نکاح
کیا،اور ان کی اولاد میں آٹھ بیٹے ہوئے۔ شیر شاہ اپنے آٹھ بھائیوں میں سب سے پہلے
نمبر پر تھے۔ ان کی پیدائش 1486 عیسوی میں دہلی کے ایک گنجان علاقے فیروزہ میں ہوئی
اور ان کا نام فرید خان چنا گیا،۔ شیر شاہ کی پیدائش کے کچھ سال بعد انکے دادا ابراہیم
خاں کا انتقال ہوا تو سلطان بہلول کے ایک
وزیر عمر خاں نے ضلع روہتاس میں سہسرام اور کچھ مزید علاقے بھی بطور تحفہ شیر شاہ
کے والد کو پیش کئے۔ سوتیلی ماں اور بھائیوں سے ان جاگیروں کی تقسیم پر انکا جھگڑا
ہوا اور وہ ناراض ہوکر جون پور میں آئے اور یہاں سکونت اختیا ر کی۔ یہاں آکر انہوں
نے جمال خاں سارنگ خانی کے ہاں ملازمت کا پیشہ اختیار کیا۔ اسی ملازمت کے دوران
انہوں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور عربی ، فارسی کے علاوہ مختلف مذاہب کا بغور
مطالعہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جمال خان نے باپ اور بیٹے کی صلح کروا دی اور شیر شاہ کو
سہسرام اور خواص پور کی جاگیرپر دوبارہ کنٹرول حاصل ہو گیا۔
شیر شاہ نے ان علاقوں کا انتظام سنبھالا تو بہت سی ایسی
اصلاحات کو لاگو کیا جن کی بدولت ان کی گڈ گورننس کا چرچا دور دور تک پھیل گیا۔ لیکن
کچھ خاندانی اختلافات کے باعث وہ اس جاگیرکو چھوڑ کر ایک مغل گورنر بہار خان لوہانی
کے پاس تشریف لائے جو اس وقت اُن علاقوں پہ حکومت کر رہے تھے جن میں شیر شاہ کی
جاگیر بھی شامل تھی۔ بہار خان لوہانی نے ہی انہیں ایک بار شیر کا شکار کرنے پر شیر
خان کا لقب سے نوازا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب لودھیوں کی حکومت خطرے میں تھی اور
ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا سورج طلوع ہورہا تھا۔ انہی دنوں بہار خاں اور شیر شاہ
کے درمیان کچھ جھگڑے پیدا ہوئے جس کے بعد 1527 عیسوی میں وہ “کھانوا” کی جنگ کے
بعد بابر کی فوج میں آگئے۔ تقریباً سوا سال تک مغل فوج میں خدمات انجام دینے کے
بعد انہیں ان کی جاگیرلوٹا دی گئی۔ اس عرصے میں شہنشاہ بابر، شیر شاہ کی قائدانہ
صلاحیتوں کو پرکھ چکے تھے اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے کافی حامی تھے۔ دوسری
جانب شیر شاہ نے بھی بھانپ لیا تھا اور وہاں سے نکل کر ایک بار پھر بہار کے حاکم
بہار خاں لوہانی کے دربار میں تشریف لائے۔ بہار خاں نے اختلافات بھلا کر انہیں
اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ تھوڑے عرصے بعد بہار خاں لوہانی کا فوت
ہوئےتو شیر شاہ نے صوبہ بہار کا سارا انتظام بذات خود سنبھال لیا۔
دوسری جانب اسی دوران 1530 میں شہنشاہ بابر کا بھی اس
دنیا سے انتقال فرماگئے اور ہمایوں نے تخت سنبھال لیا۔ اسی زمانے میں شیر شاہ کے
لوہانی قبائل سے بھی جھگڑاپیدا ہوا اور بہار کا انتظام بنگال کے حاکم کے پاس آ گیا۔
شیر شاہ نے کئی افغان قبائل کو ساتھ ملا کر ایک بڑی فوج تیار کی اور 1533 میں
انتہائی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے بنگالی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔ اس
جنگ کے بعد شیر شاہ مزید طاقت بن کر سامنے آئے۔
بنگال کوفتح کے بعد ان کا اگلا معرکہ اترپردیش میں چنار
کا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ اس وقت ہندوستان کے مضبوط ترین قلعوں میں مانا جاتا تھا اور
ایک سردار تاج خاں سارنگ کے پاس تھا۔ انہیں یہ قلعہ فتح کرنے کے لئے زیادہ تگ و دونہیں
کرنی پڑی کیونکہ تاج خان کو اس کے بیٹے نے مار دیا اور اس کی بیوی سے شیر شاہ نے
نکاح کر لیا۔ اس فتح کے باعث ان کے ہاتھ بے انتہا دولت حصہ میں آئی۔
ہمایوں کو جب افغانوں کی فتوحات کا پتہ چلا تو وہ جنگ کرنے کی خاطر آگرہ سے فوج لے کر
لکھنئو کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔ اس وقت افغان قبائل کی سرداری سردار سلطان محمود
شاہ کے پاس تھی۔ یہ جنگ 1537 میں لڑی گئی۔ دوران جنگ شیر شاہ نے ہمایوں کو خفیہ
طور پر میسج بھیجا کہ وہ اس معرکے میں حصہ نہیں لےگا اور عین جنگ کے موقع پر درمیان
میں سے نکل جائے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ شیر شاہ کے نکل جانے سے ہمایوں
کو عظیم فتح نصیب ہوئی۔ اس معرکے کے دو سال بعد ہمایوں ایک بار پھر فوجیں لے کر
بڑھے لیکن اس بار ان کا سامناشیر شاہ سوری سے تھا۔ شیر شاہ نے انہیں 1539 میں جنگ
“چوسہ” میں شکست دی اور فریدالدین شیر شاہ سوری کا لقب حاصل کرتے ہوئے اپنی
بادشاہت کا اعلان کردیا۔
ایک سال بعد شکست خوردہ ہمایوں ایک لاکھ فوج کو یکجا کرکے دوبارہ شیر شاہ کے سامنے آیا۔ قنوج کے مقام پر
دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا لیکن ایک بار پھر ہمایوں کو شکست کھانی پڑی۔ اس
شکست کے بعد ہمایوں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے بعد شیر شاہ
پورے شمالی ہندوستان کے شہنشاہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
شیر شاہ نے ویسے تو صرف پانچ سال کا عرصہ ہی شہنشاہ کے
طور پر گزارا لیکن انہوں نے ان پانچ سالوں میں وہ کام کیے جو شاید آج تک کسی نے
نہیں کئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ سکوں اور روپے کی درجہ بندی اور ویلیو کا نفاذ
تھا۔ یہ ایسا کارنامہ جو آج بھی ان کی دوراندیشی اور دانشمندی کا منہ بولتا ثبوت کے
طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے چاندی کے سکے کو روپیہ، تانبے کے سکے کو دام اور
سونے کے سکے کو مُہر کے طورپر پہچان کروائی۔ یہ نام آج بھی برصغیر اور دنیا کے کئی
ممالک میں نافذ العمل ہیں۔ ان کے دور حکومت میں کرنسی کا جو نظام متعارف کروایا گیا
وہ ان کے بعد آنے والے مغلیہ حکمرانوں حتی کہ برٹش حکومت نے بھی تھوڑی سی تبدیلی کرنے
کے بعد اسی طرح بحا ل رکھا۔
اس کے علاوہ شیر شاہ کا ایک اور شاندار کارنامہ جرنیلی
سڑک کی تعمیر اور قبل مسیح کے ہندوستانی راجا چندرگپت موریا کے دور کی تعمیر شدہ
شاہراؤں کی از سر نوع تعمیر و تکمیل ہے۔ ان شاہراؤں میں سب سے شاندار گرینڈ ٹرنک
روڈ یعنی جی ٹی روڈ کو کہا جاتا ہے، جرنیلی سڑک کو یہ نام انگریزوں کے دور میں عطا
کیا گیا۔ یہ شاہراہ تقریباً 2500 کلومیٹرطویل ہے اور بنگال سے شروع ہوکر کابل تک بچھی ہوئی
ہے۔ ایک سڑک آگرہ سے برہان بور، ایک سڑک آگرہ سے راجستھان اور ایک شاہراہ ملتان سے
لاہور تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ شاہراہیں آج بھی مختلف ناموں سے ہندوستان، افغانستان
اور پاکستان میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کی اہم ترین شاہراہوں کے اردگرد درخت لگوانے
اور 1700 کے قریب ایسی سرائیں تعمیر کروانے کا سہرا بھی شیر شاہ سوری کے کو حاصل ہے
جہاں مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام موجو تھا۔ ان سراؤں میں مساجد، کنوئیں اور
مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کیلیے چوبیس گھنٹے عملہ ہر وقت اپنی ڈیوٹی پر مامور
تھا۔ ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے لئے کھانے پینے کا الگ الگ انتظام ہوتا تھا اور
ان تمام انتظامات کا خرچ ریاست خود ادا کرتی تھی۔
ان تمام کارناموں کے علاوہ ان کا سب سے اہم کارنامہ کچھ
ایسی زرعی اصلاحات تھیں جن کے بدولت اس وقت کا کاشتکار نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے
پورے ہندوستان میں کسانوں کی زمین کی پیمائش کے لئے پیمانے مقرر کئےتھے۔ انہی پیمانوں
کے حساب سے ٹیکس کا نظام بھی شامل تھا۔ انہی زرعی اصلاحات کی بدولت لینڈ ریکارڈ جیسے
محکمے نے اپنا وجود بنایا۔ شیر شاہ کی یہ زرعی اصلاحات ایک ایسا دانشمندانہ عمل
تھا کہ بعد میں آنے والے حکمران بھی انہیں جاری و ساری رکھنے پر مجبور ہوئے۔
شیر شاہ نے اپنی زندگی میں بہت سے قلعے بنوائے جو آج بھی
اپنے شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان میں ایک قلعہ شیر گڑھ کے نام سے ہے جو صوبہ
بہار میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 1540 سے 1545 کے درمیان تعمیر ہوا اور اس کا نام شیر
شاہ سوری نے بذات خؤد اپنے نام پر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی عظیم تعمیرات میں
پرانا قلعہ دہلی بھی شامل ہے جو ہمایوں نے اپنے دور میں بنوانے کی شروعات کی لیکن
1541 میں اس قلعے کی مزید توسیع اور مرمت کا کارنامہ شیر شاہ سوری کے سر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ضلع جہلم میں دریائے
جہلم کے کنارے موجود قلعہ روہتاس بھی انہی کی عظیم الشان تعیرات میں شامل ہے۔ یہ قلعہ 1542 میں تعمیر ہوا اور آج پاکستان
کے مقبول تاریخی مقامات میں ماناجاتا ہے۔ مزید بھی انہوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قلعے
بنوائے جن میں بہار کے علاقہ سہسرام میں واقع ان کا اپنا مقبرہ بھی شامل ہے جو ان
کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے پایہ تکیمل تک پہنچایا۔
اپنے ان تمام کارناموں کےعلاوہ شیر شاہ سوری نے فتوحات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
انہی فتوحات کے سلسلے میں وہ اپنی فوج کو لے کر مدھیا پردیشن کے قلعے کالنجر کو
فتح کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ بات مشہور ہے کہ شیر شاہ نے پہلے اس قلعے پر صرف
تیروں اور گولیوں کی بارش برسانے کا حکم صادر فرمایا کیونکہ وہ اس قلعے میں موجود
پٹار نامی ایک رقاصہ کو زندہ گرفتار کرنے کے خواہشمندتھے۔ راجہ کیرت سنگھ جو کہ
کالنجر کے قلعے پر حاکم تھا اس نے خوب مقابلہ کیا اور قلعہ کوبند کر لیا۔ یوں شیر
شاہ نے فوج کو قلعے پر گولہ باری کروا دی۔ اسی گولہ باری کی وجہ سے ایک گولہ دیوار سے ٹکرا کر واپس آیا جس سے شیر
شاہ زخمی ہوگئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 22مئی 1545 عیسوی میں اس دنیا فانی
سے پردہ فرماگئے۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں صوبہ بہار میں سہسرام کے مقبرے میں سپرد
خا ک کر دیا گیا۔
0 Comments